بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

غزل| حفیظؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے
دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر
رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے
غیر کے بس میں تمہیں سن کے یہ کہہ اٹھتا ہوں
ایسی تقدیر بھی اللہ غنی ہوتی ہے
نہ بڑھے بات اگر کھل کے کریں وہ باتیں
باعثِ طولِ سخن کم سخنی ہوتی ہے
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
حسن والوں کو بھی ضد آ جائے خدا یہ نہ کرے
کر گزرتے ہیں جو کچھ جی میں ٹھنی ہوتی ہے
ہجر میں زہر ہے ساغر کا لگانا منہ سے
مے کی جو بوند ہے ہیرے کی کنی ہوتی ہے
ہوک اٹھتی ہے اگر ضبط فغاں کرتا ہے
سانس رکتی ہے تو برچھی کی انی ہوتی ہے
مے کشوں کو نہ کبھی فکرِ کم و بیش رہی
ایسے لوگوں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ
صاف انکار میں خاطرِ شکنی ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام