شبِ وصال لگایا جو اُن کو سینے سے

غزل| حفیظؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

شبِ وصال لگایا جو اُن کو سینے سے
تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے
ثواب ہو کہ نہ ہو اس سے کیا غرض زاہد
مزہ ملا مجھے تجھ کو پلا کے پینے سے
شبِ فراق یہ احسان ہے تصور کا
کہ سو رہا ہوں لگا کر کسی کو سینے سے
فلک مٹائے گا مجھ کو جو تم مکدر ہو
عداوت اس کی بڑھے گی تمہارے کینے سے

غمِ فراق میں کیا لطفِ زندگی ہے حفیظؔ
ہمیں تو موت ہی بہتر ہے ایسے جینے سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام