جب ذرا زخمِ دلِ بیمار بھرنے آئے ہے

غزل| فیروز ظفرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

جب ذرا زخمِ دلِ بیمار بھرنے آئے ہے
یادِ ایامِ محبت پھر ہوا دے جائے ہے
اتفاقاً جب اسے میرا خیال آ جائے ہے
روئے ہے گھبرائے ہے بل کھائے ہے شرمائے ہے
لب تک آتے آتے رہ جائے ہے ذکرِ حالِ دل
اُٹھتے اٹھتے وہ نگاہِ شرمگیں بھر جائے ہے
رخصت ائے شامِ جدائی الوداع ائے یادِ دوست
سونے والے جاگتے ہیں اب مجھے نیند آئے ہے
ختم کر رودادِ غم عرضِ وفا احوالِ شوق
آنکھ اُٹھا کر دیکھ جسمِ یار بھیگا جائے ہے
اپنی بربادی پہ ان کو خندہ لب پا کر ظفرؔ
احتراماً میرے لب پر بھی ہنسی آ جائے ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام