ہر کوششِ پیہم خام ہوئی ہر سعیٔ طلب ناکام رہی

غزل| فیروز ظفرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

ہر کوششِ پیہم خام ہوئی ہر سعیٔ طلب ناکام رہی
ہم پر وہ ستم بھی کر نہ سکے غیروں پہ وفا بھی عام رہی
جلوہ تو پسِ پردہ ہی رہا نظروں کو نظارہ مل نہ سکا
کچھ اُن کی ادائیں ناقص تھیں کچھ میری طلب ناکام رہی
خوشیوں کی ہزاروں راہیں تھیں عشرت کے کئی کاشانے تھے
ہر راہ میں لیکن قسمت سے دیوارِ غم و آلام رہی
اک شعلہ نگاہِ ساقی کا ائے شیخ تجھے بھی پھونک گیا
تقویٰ بھی ترا کام آ نہ سکا توبہ بھی تری ناکام گئی
تہذیب و تمدن کے قاتل پاتے ہی رہے اعلیٰ منصب
مفلس کی ادا بے بس کی وفا آوارہ ہوئی بدنام رہی
اس دل کی لگی کو کیا کہیئے جس نے یہ ظفرؔ کا حال کیا
اک حرفِ غلط آغاز ہوا اک لغزشِ پا انجام رہی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام