شب کو پہلو میں جو وہ ماہِ سیہ پوش آیا

غزل| اخترؔ شیرانی انتخاب| بزم سخن

شب کو پہلو میں جو وہ ماہِ سیہ پوش آیا
ہوش کو اتنی خبر ہے کہ نہ پھر ہوش آیا
بے خودی سمجھی ہم آغوش ہوئی مجھ سے بہار
کچھ اِس انداز سے وہ یاسمن آغوش آیا
جب نشاں تک نہ رہا قبر کا میری باقی
تب مری قبر پہ وہ زود فراموش آیا
پھول بکھراتا ہوا نکہتیں برساتا ہوا
وہ سمن رنگ و سمن بو و سمن پوش آیا
ماہ و انجم سے کہو زینتِ کاشانہ بنیں
کہ پھر آغوش میں وہ عشرتِ آغوش آیا
ان کا زانو تھا مرا سر مرا دل ہات ان کا
بے خودی تیرا برا ہو مجھے کب ہوش آیا
دو گھڑی مل بھی گئی گر غمِ دنیا سے نجات
چٹکیاں لیتا ہوا دل میں غمِ دوش آیا
کس لئے رو دیئے یوں بیٹھے بٹھائے اخترؔ
آج کیا یاد کوئی یاد فراموش آیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام