وصل و فصل کی ہر منزل میں شامل اک مجبوری تھی

غزل| سلیم احمد سلیؔم انتخاب| بزم سخن

وصل و فصل کی ہر منزل میں شامل اک مجبوری تھی
تجھ سے ملتے تو کیا ملتے خود سے بھی مہجوری تھی
وصل کے سارے لمحے جھوٹے ملنا قرض جدائی تھا
ساتھ ہمارے پہلو بہ پہلو قرب کے بھیس میں دوری تھی
آہوں کی تعمیریں کی تھیں صبر کے باغ لگائے تھے
شہرِ وفا میں محنتِ جاں کی روز نئی مزدوری تھی
باتیں لاکھوں کچھ بھی کہئے لیکن اس کے بعد یہ فکر
جانے کیا کہنا بھولے ہیں کوئی بات ضروری تھی
قصہ چھیڑا مہر و وفا کا اوّلِ شب ان آنکھوں نے
رات کٹی اور عمر گزاری پھر بھی بات ادھوری تھی
بعد میں کیا انجام ہوا یہ آگے پڑھنے والے بتائیں
اس کی کتابِ دل داری کی پہلی جلد تو پوری تھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام