یہ جو ہم لوگ محبت کی زباں بولتے ہیں

غزل| ممتازؔ گورمانی انتخاب| بزم سخن

یہ جو ہم لوگ محبت کی زباں بولتے ہیں
ہم نہ بولیں تو پرندے بھی کہاں بولتے ہیں
ایک دہلیز سے اٹھے نہیں ہیں ہم لوگ
ایک کوچہ ہے جسے سارا جہاں بولتے ہیں
میں وہ فنکار کہ لفظوں سے بناؤں دنیا
اور جہاں والے اسے کارِ زیاں بولتے ہیں
صلح اس بات پہ کر لیں تو خرابی کیا ہے
دونوں ہمسائے ہیں اور اردو زباں بولتے ہیں
آگ ہوتی ہی وہی ہے جو بجھائے نہ بجھے
جو بجھائے سے بجھے اس کو دھواں بولتے ہیں
بات ہی ایسی بنائی میرے قصہ گو نے
ورنہ کردار کہانی کے کہاں بولتے ہیں

عشق زنجیر سے دبتا ہے نہ زندانوں سے
بولنے والے سرِ نوکِ سناں بولتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام