تمہارا رنگ رنگِ آسماں جیسا بدلتا ہے

غزل| غیاث متینؔ انتخاب| بزم سخن

تمہارا رنگ رنگِ آسماں جیسا بدلتا ہے
کسی کو چاہنے والا کہیں اتنا بدلتا ہے
صبا شبنم شفق رخسار گل مہتاب ان سب کا
تمہارا نام لیتا ہوں تو کیوں چہرہ بدلتا ہے
صبا گفتار شیریں لب ستارہ چشم ہیں تو کیا
بدلتے ہم بھی ہیں جب سامنے والا بدلتا ہے
کبھی جاتی نہیں جنگل کی بو صندل کے پیکر سے
کہ صورت کے بدلنے سے کہیں رشتہ بدلتا ہے
یہ شہرِ بے صدا اندر سے شہرِ آرزو نکلا
دھواں ہر دم یہاں بجھتے چراغوں کا بدلتا ہے
اترتے وقت پانی میں ذرا یہ دیکھ لینا تھا
کہ اندر بیچ میں جا کر یہی دریا بدلتا ہے
رہو دیوار کے سائے میں لیکن دیکھتے رہنا
ہمیشہ رخ یہاں دیوار کا سایہ بدلتا ہے
سخن رستہ لکیروں سے نہیں لفظوں سے روشن ہے
لکیریں پیٹنے سے بھی کبھی رستہ بدلتا ہے

متینؔ آؤ چلیں خیمے کی جانب اک ذرا سو لیں
وہ دیکھو صبح کا تارا لباس اپنا بدلتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام