شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے

غزل| ذو الفقار عادلؔ انتخاب| بزم سخن

شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے
اس منظر کو غور سے دیکھو بارش ہونے والی ہے
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرہ خالی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
اپنی مرضی سے سب چیزیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں
بے ترتیبی نے اس گھر میں اتنی جگہ بنا لی ہے
دیر سے قفل پڑا دروازہ اک دیوار ہی لگتا تھا
اس پر ایک کھلے دروازے کی تصویر لگا لی ہے
ہر حسرت پر ایک گرہ سی پڑ جاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنا لی ہے
اوپر سب کچھ جل جائے گا کون مدد کو آئے گا
جس منزل پر آگ لگی ہے سب سے نیچے والی ہے
اک کمرہ سایوں سے بھرا ہے اک کمرہ آوازوں سے
آنگن میں کچھ خواب پڑے ہیں ویسے یہ گھر خالی ہے

پیروں کو تو دشت بھی کم ہے سر کو دشت نوردی بھی
عادؔل ہم سے چادر جتنی پھیل سکی پھیلا لی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام