بے کراں شب میں کہیں ایک ستارہ ہی سہی

غزل| امجد اسلام امجدؔ انتخاب| بزم سخن

بے کراں شب میں کہیں ایک ستارہ ہی سہی
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہی سہی
ہم زباں دے کے نہیں بات سے پھرنے والے
ہے خسارے کا یہ سودا تو خسارہ ہی سہی
دلِ عشاق بھی بچے کی طرح ہوتا ہے
اس کے ہاتھوں میں دلاسے کا غبارہ ہی سہی
وقت کی اپنی عدالت بھی ہوا کرتی ہے
آج اس شہر میں قانون تمہارا ہی سہی
کچھ تو ہو زادِ سفر راہِ طلب میں جاناں
ایک دزدیدہ نظر ایک اشارہ ہی سہی
وہ ہیں اس جیت پہ نازاں یہ خوشی کیا کم ہے
چلئے اس کھیل میں نقصان ہمارا ہی سہی
آپ کی بزم میں ہونا ہی بہت ہے ہم کو
ایک کونہ ہی سہی ایک کنارہ ہی سہی
آخری موج تلک ہاتھ میں پتوار رہے
زندگی بحرِ بلا خیز کا دھارا ہی سہی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام