سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی

غزل| امجد اسلام امجدؔ انتخاب| بزم سخن

سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی
عجب ایک عرصۂ درد ہے نہ گمان ہے نہ خبر کوئی
نہیں اب تو کوئی ملال بھی کسی واپسی کا خیال بھی
غمِ بے کسی نے مٹا دیا مرے دل میں تھا بھی اگر کوئی
تجھے کیا خبر ہے کہ رات بھر تجھے دیکھ پانے کو اک نظر
رہا ساتھ چاند کے منتظر تری کھڑکیوں سے اُدھر کوئی
سرِ شاخِ جاں ترے نام کا عجب ایک تازہ گلاب تھا
جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی
تری بے رخی کے دیار میں گھنی تیرگی کے حصار میں
جلے کس طرح سے چراغِ جاں کرے کس طرف کو سفر کوئی
کٹے وقت چاہے عذاب میں کسی خواب میں یا سراب میں
جو نظر سے دور نکل گیا اُسے یاد کرتا ہے ہر کوئی

سرِ بزم جتنے چراغ تھے وہ تمام رمز شناس تھے
تری چشمِ خوش کے لحاظ سے نہیں بولتا تھا مگر کوئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام