مزاجِ زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی

غزل| رشید کوثرؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

مزاجِ زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی
اسی اڑتے ہوئے بادل میں بجلی بھی ہے پانی بھی
جمالِ موت پر قدرت نے پردے ڈال رکھے ہیں
وگر نہ بار ہو جاتا خیالِ زندگانی بھی
سماعت خود تصور کے جھروکے کھول دیتی ہے
بڑی نظارہ پرور ہے صدائے لن ترانی بھی
سکوتِ نیم شب میں ڈوب کر دہرا رہا ہوں میں
بہت دلچسپ ہے ائے زندگی تیری کہانی بھی
محبت کی حقیقت کا تو پیمانہ نہیں لیکن
محبت کے تقاضے ہیں زمانی بھی مکانی بھی
ہر اک ذرہ میں اک دنیا ہر اک دنیا میں سو عالم
وطن اندر وطن نکلی مری بے خانمانی بھی

کنایے میں بہت کچھ کام دئے جاتے ہیں ائے کوثرؔ
صریرِ خامہ میں ہوتا ہے پیغامِ زبانی بھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام