پینے کا جب مزہ ہے کہ سب کو پلا کے پی

غزل| رشید کوثرؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

پینے کا جب مزہ ہے کہ سب کو پلا کے پی
دو گھونٹ پی تو سینکڑوں ساغر لنڈھا کے پی
اب تک ترا خمارِ شبینہ نہیں گیا
میرے جلیس جامِ صبوحی اٹھا کے پی
دو دن کی زندگی میں یہ شکوہ سرائیاں
پینا ہے زہرِ غم تو ذرا مسکرا کے پی
سن تخیلے میں سینۂ گیتی کی دھڑکنیں
اور ان میں اپنے دل کی صدائیں ملا کے پی
موجِ نسیم ، جوۓ رواں ، دورِ ماہتاب
ہر منظرِ حیات کو صہبا بنا کے پی
دنیا تمام موجِ محیطِ نشاط ہے
میخانہ تا بساطِ نظارہ سجا کے پی
نازک بہت معاملۂ حسن و عشق ہے
پی جرعہ جرعہ اورنگاہیں بچا کے پی
آنکھوں کے چار ہوتے ہی اک نشہ چھا گیا
پی کر پلائی آپ نے ، میں نے پلا کے پی
انگور کی شراب میں وہ مستیاں کہاں
کوثرؔ حریمِ حسن میں اک بار جا کے پی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام