ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نہ بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
ستاروں کی دیکھو بہار آنکھ اُٹھا کر
کھلاتا ہے پھول آسماں کیسے کیسے
کڑے اُن کے تیور جو مقتل میں دیکھے
لئے ناز نے امتحاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
وہ صورت نہ آنکھوں میں اب ہے نہ دل میں
مکیں سے ہیں خالی مکاں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جہاں نام آتا ہے ان کا زباں پر
تو لیتی ہے بوسے زباں کیسے کیسے
ہر اک دل پہ ہیں داغ ناکامیوں کے
نشاں دے گیا بے نشاں کیسے کیسے
بہار آ کے قدرت کی گلشن میں دیکھو
کھلاتا ہے گل باغباں کیسے کیسے
اُٹھائے ہیں مجنوں نے لیلیٰ کے خاطر
شتر غمزۂ سارباں کیسے کیسے
خوش اقبال کیا سرزمینِ سخن ہے
ملے ہیں اسے باغباں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
شبِ وصل حل ہونگے کیا کیا معمّے
عیاں ہونگے رازِ نہاں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
بنا کر دکھائے مرے دردِ دل نے
تہِ آسماں آسماں کیسے کیسے
امیرؔ اب مدینے کو تو بھی رواں ہو
چلے جاتے ہیں کارواں کیسے کیسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام