ادب نے دل کے تقاضے اُٹھائے ہیں کیا کیا

غزل| یاسؔ / یگانہؔ چنگیزی انتخاب| بزم سخن

ادب نے دل کے تقاضے اُٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
نہ جانے سہوِ قلم ہے کہ شاہ کارِ قلم
بلائے حسن نے فتنے اُٹھائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
کسی کے روپ میں تم بھی تو اپنے درشن دو
جہاں میں شاہ و گدا رنگ لائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والی زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
گزر کے آپ سے ہم آپ تک پہنچ تو گئے
مگر خبر بھی ہے کچھ پھیر کھائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا

خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام