کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے

غزل| یاسؔ / یگانہؔ چنگیزی انتخاب| بزم سخن

کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری ہوش ہے نہ مستی ہے
کیا بتاؤں کیا ہوں میں قدرت خدا ہوں میں
میری خود پرستی بھی عین حق پرستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے خاک ہے مگر کیسی
لیجئے تو مہنگی ہے بیچیے تو سستی ہے
خضرِ منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے
کیا کہوں سفر اپنا ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلہ کی پستی ہے
حسنِ بے تماشہ کی دھوم کیا معمّہ ہے
کان بھی ہیں نا محرم آنکھ بھی ترستی ہے
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر سادگی برستی ہے
ترکِ لذّتِ دنیا کیجیے تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا فیضِ تنگ دستی ہے
دیدنی ہے یاسؔ اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام