جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا

غزل| عبد اللطیف تپشؔ انتخاب| بزم سخن

جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
اچھی دیدار کی حسرت تھی کہ مرنے نہ دیا
مدّتوں کش مکشِ یاس و تمنا میں رہے
غم نے جینے نہ دیا شوق نے مرنے نہ دیا
ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکّھا
ڈُوب مرنے نہ دیا پار اُترنے نہ دیا
کوئی تو بات ہے جو غیر کے آگے اُس نے
شکوہ کیسا کہ مجھے شکر بھی کرنے نہ دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام