عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو!

نظم| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو!
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
اس سے پہلے کبھی نفرت کے یہ معیار نہ تھے
جنگ کرتے تھے فقط اپنے تحفظ کے لئے
نوعِ انساں سے تو تم برسرِ پیکار نہ تھے
حسن و زیبائی عالم سے تو بیزار نہ تھے
وہ بھی کیا دن تھے کہ 'تہذیب' ترقی پہ نہ تھی
جب عداوت کے بھی آداب ہُوا کرتے تھے
ذہن بنجر نہیں شاداب ہُوا کرتے تھے
اب تو انسان کچھ اس دور کا جذباتی ہے
جنگ کلیوں کے چٹکنے سے بھی چھڑ جاتی ہے
اس طرح چاک ہوا پیرہنِ امن و سکوں
رہنمایانِ سیاست سے یہ شاید ہی سِلے
اپنے فن کار کا اک بار تو کہنا مانو
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو!
اتنی نفرت بھی نہ بوؤ کہ قیامت کاٹو
عشق کرلو کہ یہی عشق ہے اب شرطِ بقا
پتھروں نے اسی قوت سے ابھارے کہسار
یہی قوت ہے سمندر یہی قوت صحرا
اسی قوت سے ہے مربوط ستاروں کا نظام
شاخِ گُل ہے اسی قوت کے سہارے گلنار
یہی قوت ہے توازن ، یہی قوت ہے خدا
آج ہو جائے جو انسان کو انسان سے پیار
چار سُو ایک تبسم کا ہو عالم طاری
صحنِ گلشن میں بدل جائے یہ دھرتی ساری
توپ ہو روئے زمیں پر نہ فضا میں بمبار
لاکھ طوفان اُٹھیں لاکھ عناصر گرجیں
عشق چاہے تو شجر کیا کوئی پتہ نہ ہلے
آدمیت کا جو منصب ہے اسے پہچانو
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو!


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام