ہجر کی رات کا انجام تو پیارا نکلا

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

ہجر کی رات کا انجام تو پیارا نکلا
وہی سورج کہ جو ڈوبا تھا دوبارہ نکلا
ظلمتِ شب نے کیا دن کا تصور ممکن
یہ اندھیرا تو اجالے کا سہارا نکلا
تُو کہ تھا بزم میں تصویر کم آمیزی کی
میری تنہائی میں کیوں انجمن آرا نکلا
وقت نے جب بھی مرے ہاتھ سے مشعل چھینی
ذہن میں تیرے تصور کا ستارا نکلا
میں ترے قرب سے ڈرتا ہوں کہ تو زندہ رہے
میں سمندر میں جب اترا تو کنارا نکلا
اپنی ہستی کو مٹانے کا نتیجہ یہ ہے
پھول توڑا تو مرے خون کا دھارا نکلا
نفسی نفسی بھی وہی سچ کی دہائی بھی وہی
تیرا محشر مرا مانوس نظارا نکلا
اب تو پتھر کے زمانے سے نکل آؤ ندیمؔ
اب تو سوچوں کے تصادم سے شرارا نکلا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام