گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی
سنتے تھے ہم کہ عشق نہیں رائیگاں کبھی
اتنا تو یاد سا ہے کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی تھی کچھ نگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گل قفس میں رکھ کے نہ صیاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے جیسے نہیں آشیاں کبھی
بھولے ہوئے ہو تم تو دلائیں گے ہم نہ یاد
ہم تم بھی راہِ زیست میں تھے ہم عناں کبھی
ویرانۓ نگاہ پہ میری نہ جائیے
پلتی تھیں اس کے سائے میں بھی بجلیاں کبھی
ہاں یاد ہے کسی کی وہ پہلی نگاہِ لطف
پھر خوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی

ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذِ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام