مقتل مقتل اہلِ ستم کا حوصلۂ دل دیکھا ہے

غزل| ملک زادہ منظورؔ انتخاب| بزم سخن

مقتل مقتل اہلِ ستم کا حوصلۂ دل دیکھا ہے
ہم نے فرازِ دار سے اکثر کوچۂ قاتل دیکھا ہے
صحرا زنداں طوق سلاسل آتش زہر اور دار و رسن
دنیا نے تاریخِ وفا کا بس یہی حاصل دیکھا ہے
سرخیٔ لب کے رنگِ قبا کے نقشِ حنا کے خواب نہ پوچھ
وقتِ سحر تعبیر میں ہم نے خونِ رگِ دل دیکھا ہے
مجھ کو یہ ڈر ہے ٹوٹ نہ جائے آج غرورِ حسن و جمال
اُس نے میرے آئینۂ دل کو اپنے مقابل دیکھا ہے

زنداں زنداں شورِ سلاسل گلشن گلشن شورشِ گُل
اب کے برس منظورؔ نے طوفاں ساحل ساحل دیکھا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام