اگر اُٹّھی تو کیا اُٹّھی اگر برسی تو کیا برسی

غزل| ابو المجاہد زاہدؔ انتخاب| بزم سخن

اگر اُٹّھی تو کیا اُٹّھی اگر برسی تو کیا برسی
سمندر سے گھٹا اٹھی سمندر پہ ہی جا برسی
بجائے جامِ مے آنکھوں کے پیمانے چھلک اُٹّھے
کچھ اس انداز سے برسات میں اب کے گھٹا برسی
ہزاروں گھر گرائے کھیتیاں برباد کر ڈالیں
اٹھی کالی گھٹا تو بن کے اک قہرِ خدا برسی
رہا صحرائے دل پیاسے کا پیاسا پھر بھی ائے زاہدؔ
برسنے کو تو وہ بدلی کرم کی بارہا برسی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام