حقیقتِ حسن! حسن کاکل میں نہ گیسوئے شکن دار میں ہے

نظم| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

حسن کاکل میں نہ گیسوئے شکن دار میں ہے
نہ یہ ابرو کی لچکتی ہوئی تلوار میں ہے
نہ یہ موجود ہے خم ڈالی ہوئی زلفوں میں
مانگ میں ہے نہ یہ پیشانیٔ گل نار میں ہے
نہ یہ کاجل میں نہ یہ سرمے کی ہے تحریروں میں
نہ یہ مژگاں میں نہ یہ چشمِ فسوں کار میں ہے
تابشِ غازہ نہ یہ سرخیٔ گلگونہ میں
لبِ شیریں میں نہ یہ آئینۂ رخسار میں ہے
نہ گہر جیسے چمکتے ہوئے یہ دانتوں میں
نہ یہ غنچہ سے مشابہ دہنِ یار میں ہے
نہ یہ پوشیدہ ہے لہراتے ہوئے آنچل میں
نہ قبا میں یہ نہ پیراہنِ زرکار میں ہے
چوڑیوں کی نہ کھنکتی ہوئی آوازوں میں
نہ مچلتی ہوئی پازیب کی جھنکار میں ہے
یہ تو وہ حسن ہے جس کا ہے زمانہ محدود
یہ جوانی کی مقید در و دیوار میں ہے
ایسا یوسف کہ طلب جس کی تمنا جس کی
ہر زمانے میں ہر اک دور کے بازار میں ہے
جس کی قیمت کبھی اُترے نہ لطافت جائے
حسن وہ دل میں ہے سیرت میں ہے کردار میں ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام