صبا یہ کیفیت لائی کہاں سے

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

صبا یہ کیفیت لائی کہاں سے
نظر آتے ہیں گل بوٹے جواں سے
گلوں کی صف میں ہلچل مچ گئی ہے
کہیں گزرے نہ ہوں وہ گلستاں سے
الہی خیر ہو میرے سفر کی
وہیں پر ہوں چلا تھا میں جہاں سے
تقاضے وقت کے ہوتے ہیں ورنہ
مجھے نفرت نہیں ہے مہوشاں سے
گلوں سے اور اس درجہ عداوت
ذرا یہ پوچھنا ہے باغباں سے
یہی حالت رہی تو دیکھ لینا
دھواں اٹھے گا اک دن آشیاں سے
شکستہ دل پہ اور اتنی جفائیں
میں لاؤں صبر کی طاقت کہاں سے
مناسب ہے نہ چھیڑو ہم نشینو
نہ اٹھے حشر میری داستاں سے
زمانے میں کسی ہمدرد کہئے
جگر چھلنی ہے لطفِ دوستاں سے
وفاؤں کے یہ مانا معترف ہیں
مگر رہتے ہیں پھر بھی بدگماں سے
حقیقت جز خدا کے کون جانے
نظر آتے ہیں لیکن مہرباں سے
مبارک ہو انہیں پرواز ان کی
کہیں ٹکرا نہ جائیں آسماں سے
نصیب اپنا ہے ان سے کیا شکایت
نہ کچھ حاصل ہوا آہ و فغاں سے
کرامت ہے مری دیوانگی کی
نکل آیا ہوں حدِّ امتحاں سے
امینِ غم سہی لیکن بشر ہوں
تڑپ اٹھتا ہے دل سوزِ نہاں سے
تمنائے کرم ہے ان سے کہنا
رئیسؔ الشاکری ہیں نیم جاں سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام