نالۂ دل ۔ ۔ ۔ قلم سجود میں مصروفِ جبہہ سائی ہے

نظم| مولانا اسحق سندیلوی شہیدؔ انتخاب| بزم سخن

قلم سجود میں مصروفِ جبہہ سائی ہے
کہ شاخِ علم میں تازہ بہار آئی ہے
ستم ہے آہ مسلماں کے خوں کی ارزانی
غضب خدا کا جفا کار کی بن آئی ہے
نہ دل میں خوفِ خدا ہے نہ آنکھ میں ہے حیا
یہ اقتدار کی کیسی ترنگ آئی ہے
ڈرو ڈرو کہ خدا کے یہاں نہیں اندھیر
نہ دھوکہ کھاؤ کہ تم نے یہ ڈھیل پائی ہے
کیا ہے دیدۂ نرگس نے یہ بھی نظّارہ
پیام لے کے خزاں کا بہار آئی ہے
نہیں مفر ہے کوئی انتقامِ یزداں سے
کہیں خدا سے بھی بندوں نے پیش پائی ہے
محض فریب ہے شاخِ ستم کی سرسبزی
چمن کی لاش پہ رونے بہار ائی ہے
نہ کر غرور کہ انجام اس کا ذلّت ہے
الہ حق کی سزا وار کبریائی ہے
کئے ہیں ظلم بہت ظالموں نے دنیا میں
خدا گواہ ہے سب نے سزا بھی پائی ہے
تماشہ قدرتِ حق کا زمیں نے دیکھا ہے
کہ فیلِ مست نے چیونٹی سے زک اٹھائی ہے
ہزار بار یہ چشمِ فلک نے دیکھا ہے
مآلِ تاج وراں کاسۂ گدائی ہے
یہ لاکھ بار نظارہ کیا ہے انجم نے
فلک نے خاک سلاطین کو پھنکائی ہے
کرو نہ ناز کہ سو بار برقِ قہرِ الہ
تمہارے خرمنِ شوکت پہ مسکرائی ہے
ڈرو نہ ہم سے کہ مجبور و ناتواں ہیں ہم
ڈرو خدا سے کہ جس کی یہ سب خدائی ہے
الہِ ارض و سما ہم کدھر نکل جائیں
تو ہی ہے حافظ و ناصر تری دہائی ہے
تباہ ایسے ہو اور امتِ شہِ ابرارؐ
ترے حبیب کی اک عمر کی کمائی ہے
قصور ہے یہ ہمارا کہ دولتِ توحید
ترے حبیب کے صدقے میں ہم نے پائی ہے
یہاں وہاں ہے جبیں سائی گر طریقِ جہاں
ہمارا کیش ترے در پہ جبہہ سائی ہے

تو ہی ہے ناصرِ مظلوم تجھ سے ہے فریاد
ہماری سن لے کہ حد سے گزر گئی بیداد


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام