ٹوٹی پھوٹی ناؤ ہے الٹی ہوا ہے اور میں

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

ٹوٹی پھوٹی ناؤ ہے الٹی ہوا ہے اور میں
عمر کے دریا میں طوفانِ بلا ہے اور میں
خرچ کو دو چار سانسیں گرمیاں بازار کی
ساتھ میرے میرا سودائے وفا ہے اور میں
زندگی کے قرض میں کیسے چکاؤں کیا کروں
مفلسی ہے مفلسی کی انتہا ہے اور میں
اس جہانِ رنگ و بو میں بھول جانے کا مزاج
فَاذکُرُوانِی کا پیامِ جاں فزا ہے اور میں
شاہیاں آنکھیں جھکائے ہیں تو حیرت بھی نہیں
میرے گھر میں ایک ٹوٹا بوریا ہے اور میں
وہ نشانِ بے نشانی میں شہیدِ جستجو
راستے میں دور تک آوازِ پا ہے اور میں
پیاس نے ہونٹوں پہ لکھ رکھا ہے کوثر کا خلوص
دھوپ کی شدت ہے رحمت کی گھٹا ہے اور میں
چار دن کی زندگی کے راستے میں ائے رئیسؔ
آرزؤوں کا انوکھا قافلہ ہے اور میں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام