دنیا سے کہاں تک الجھے گا عقبیٰ کا بھی ساماں کرتا چل

غزل| عبرتؔ صدیقی لکھنوی انتخاب| بزم سخن

دنیا سے کہاں تک الجھے گا عقبیٰ کا بھی ساماں کرتا چل
سجدوں سے سجا پیشانی کو ایمان درخشاں کرتا چل
امید کی شمعیں روشن کر ہر پھول کو خنداں کرتا چل
یوں شامِ الم کا ہر لمحہ فردوس بداماں کرتا چل
دو دن کی بہارِ دنیا ہے کچھ کارِ نمایاں کرتا چل
اب خون سے اپنے سینچ کے تو شاداب گلستاں کرتا چل
تو کفر کی ظلمت میں پھر سے ایمان کی کرنیں پیدا کر
پھر راہِ حقیقت دکھلا کر کافر کو مسلماں کرتا چل
کیوں چارہ گروں کی فکر میں ہے ہمت سے ذرا تو کام تو لے
تو اپنی ہی ہاتھوں سے غافل اب درد کا درماں کرتا چل
رہزن سے نہ ڈر کر عزمِ سفر کچھ ظلم و ستم کی فکر نہ کر
اب راہِ طلب کی ہر مشکل ہنس کھیل کے آساں کرتا چل
دنیا کو دکھا دے راہِ عمل خوابیدہ مقدر چمکا دے
ایمان کے شعلے بھڑکا دے ظلمت میں چراغاں کرتا چل
گلشن کی فضا پر کیف بنا کلیوں کو سکھا ہنس کر کھلنا
وحدت کا ترانہ چھیڑ کے تو بلبل کو غزل خواں کرتا چل
غفلت کا ہٹا پردہ دل سے بیدار ہو اب میداں میں نکل
اصلاح و عمل کی دولت کو ہر سمت فراواں کرتا چل
جانا ہے تجھے اک دن عبرتؔ خود بڑھ کے عمل کے ساحل تک
گردابِ حوادث سے ٹکرا اندازۂ طوفاں کرتا چل



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام