ابھی تو حوصلۂ کاروبار باقی ہے

غزل| وامقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

ابھی تو حوصلۂ کاروبار باقی ہے
یہ کم کہ آمدِ فصلِ بہار باقی ہے
ابھی تو شہر کے کھنڈروں میں جھانکنا ہے مجھے
یہ دیکھنا بھی تو ہے کوئی یار باقی ہے
ابھی تو کانٹوں بھرے دشت کی کرو باتیں
ابھی تو جیب و گریباں میں تار باقی ہے
ابھی تو کاٹنا ہے تیشوں سے چٹانوں کو
ابھی تو مرحلۂ کوہسار باقی ہے
ابھی تو جھیلنا ہے سنگلاخ چشموں کو
ابھی تو سلسلۂ آبشار باقی ہے
ابھی تو ڈھونڈنی ہیں راہ میں کمیں گاہیں
ابھی تو معرکۂ گیر و دار باقی ہے
ابھی نہ سایۂ دیوار کی تلاش کرو
ابھی تو شدتِ نصف النہار باقی ہے
ابھی تو لینا ہے ہم کو حسابِ شہرِ قتال
ابھی تو خونِ گلو کا شمار باقی ہے
ابھی یہاں تو شفق گوں کوئی افق ہی نہیں
ابھی تصادمِ لیل و نہار باقی ہے
یہ ہم کو چھوڑ کے تنہا کہاں چلے وامقؔ
ابھی تو منزلِ معراج دار باقی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام