غافل ہوں تری یاد سے ایسا تو نہیں ہے

غزل| پنڈت ودیا رتن عاصیؔ انتخاب| بزم سخن

غافل ہوں تری یاد سے ایسا تو نہیں ہے
ہر وقت مرے دل میں تری یاد مکیں ہے
دنیائے محبت بڑی دل کش ہے حسیں ہے
ہر ایک کو راس آئے ضروری تو نہیں ہے
مانا کہ زمانے کا ہر اک نقش حسیں ہے
اس پر بھی زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے
اک عرضِ تمنا کے سوا ہم نے کیا کیا
کس بات پہ وہ شعلہ بدن چیں بہ جبیں ہے
کیا خاک ہو میرے دلِ بیتاب کا درماں
جب تجھ پہ تری چشمِ توجہ ہی نہیں ہے
دل میں ہے مگر جذبۂ اخلاص و محبت
وہ خود ہی کھنچے آئیں گے یہ میرا یقیں ہے
کیا کہئے محبت میں عجب حال ہے اپنا
نظریں ہیں کہیں اور تو دل اور کہیں ہے
رہ رہ کے کھٹکتا ہے جو ہر سانس میں پیہم
سینے میں کوئی خار ہے یا قلبِ حزیں ہے
اقرارِ وفا کر بھی چکیں تیری نگاہیں
افسوس ترے لب پہ مگر پھر بھی نہیں ہے
اس بت کا کوئی عہد بھی ایفا نہیں ہوتا
کیا اس کا یقیں جس کا نہ ایماں ہے نہ دیں ہے
کیا طرفہ قیامت ہے مری وجہِ تباہی
وہ پوچھتے ہیں اور مجھے یاد نہیں ہے
شرمندۂ احساں میں نہیں راہنما کا
عاصیؔ مرا رہبر تو مرا عزم و یقیں ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام