سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں

غزل| وامقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں
ہم کو مستقبلِ زرّیں نے پکارا تو نہیں
دست و پا شل ہیں کنارے سے لگا بیٹھا ہوں
لیکن اس شورشِ طوفان سے ہارا تو نہیں
آ کے پھر لوٹ چلی کشتیٔ دل ساحل سے
پھر کسی موجۂ طوفاں نے پکارا تو نہیں
اس غمِ دوست نے کیا کچھ نہ ستم ڈھائے مگر
غمِ دوراں کی طرح جان سے مارا تو نہیں
دکھ بھرے گیتوں سے معمور ہے کیوں بربطِ جاں
اس میں کچھ گرسنہ نظروں کا اشارا تو نہیں
شک جو دے نہ اٹھے لو سرِ مژگاں آ کر
صرف اک قطرۂ شبنم ہے شرارا تو نہیں
ہاتھ میں جام لئے کب سے اسی سوچ میں ہوں
میں ہی تنہا اسے پی لوں یہ گوارا تو نہیں
اک اجالا سا جھلکتا ہے پسِ پردۂ شب
چشمِ بے خواب میں لرزاں کوئی تارا تو نہیں
دور مشرق میں جو روشن ہیں کئی انگارے
اپنی قسمت کا کوئی ان میں ستارا تو نہیں
کتنی امیدوں پہ جیتا رہا وامقؔ اب تک
اب مگر اک یہی جینے کا سہارا تو نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام