آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی
ایک چھلکتے ساغر میں مے بھی ہے میخانہ بھی
بیخودیٔ دل کا کیا کہنا سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں
ہستی سے مانوس بھی ہوں ہستی سے بیگانہ بھی
حسن نے تیرے دنیا میں کیسی آگ لگا دی ہے
برق بھی شعلہ برپا ہے رقص میں ہے پروانہ بھی
وسعتِ وحشت تنگ ہوئی بگڑا گھر دیوانوں کا
نجد کے اک سودائی نے لوٹ لیا ویرانہ بھی
آج محبت رسوا ہے ہاتھوں سے ہوشیاروں کے
عشق کی پہلی دنیا میں تھا کوئی ایک دیوانہ بھی
دل کی دنیا ہلتی ہے روکو اپنی نظروں کو
کافر لوٹے لیتی ہیں آج تجلی خانہ بھی

گردش مست نگاہوں کی آخر وجد انگیز ہوئی
چکر میں ساغرؔ بھی ہے دور میں ہے پیمانہ بھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام