جس طرح گہنا گیا میری خوشی کا آفتاب

غزل| نوازؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

جس طرح گہنا گیا میری خوشی کا آفتاب
یوں نہ گہنا جائے یا رب پھر کسی کا آفتاب
دوستی کے سارے سائے مختصر ہو جائیں گے
سر پہ چڑھتا آ رہا ہے دشمنی کا آفتاب
کیا بتاؤں میں قیامت خیز منظر کی تپش
ہے سوا نیزے پہ میری مفلسی کا آفتاب
میرے تیرے رابطے کا سلسلہ بھی ہے عجیب
میں غموں کی دھوپ ہوں اور تو خوشی کا آفتاب
کیا سحر کیا دوپہر کیا شام ہیں کچھ مرحلے
ڈوب ہی جاتا ہے آخر زندگی کا آفتاب
چند لمحوں کی تمازت پر تکبّر اور غرور
بادلوں میں گھر نہ جائے روشنی کا آفتاب


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام