جو ہے اِس چراغ کی زندگی اُسی زندگی کے خلاف ہے

غزل| نوازؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

جو ہے اِس چراغ کی زندگی اُسی زندگی کے خلاف ہے
یہ چراغ کیسا چراغ ہے کہ جو روشنی کے خلاف ہے
یہ جلا دیا وہ بجھا دیا یہ تو کام ہے کسی اور کا
نہ ہوا کے کوئی خلاف ہے نہ ہوا کسی کے خلاف ہے
وہ ہے بے وفا تو وفا کرو جو اثر نہ ہو تو دعا کرو
جسے چاہو اس کو برا کہو یہ تو دوستی کہ خلاف ہے
وہ جو دھوپ تھی وہ سمٹ گئی وہ جو چاندنی تھی بکھر گئی
مگر ایک جگنو حقیر سا ابھی تیرگی کے خلاف ہے

وہ جو میرے غم میں شریک تھا جسے میرا غم بھی عزیز تھا
میں جو خوش ہوا تو پتا چلا وہ مری خوشی کے خلاف ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام