سب کے غموں میں تھوڑی تھوڑی میں نے حصہ داری کی

غزل| نسیم نکہتؔ انتخاب| بزم سخن

سب کے غموں میں تھوڑی تھوڑی میں نے حصہ داری کی
خوشیوں کی امید نہ رکھی درد سے رشتہ داری کی
دنیا والوں کی عادت ہے یہ تو دکھاوا کرتے ہیں
میں نے سب کو اپنا سمجھا دنیا نے مکاری کی
سب مصروف تھے کوئی نہ آیا حال مرا سننے کے لئے
شہر میں یوں تو پھیل گئی تھی خبر مری بیماری کی
ظالم رات بہت بھاری تھی آنکھوں پر کیا کیا گزری
صبح کی آہٹ سن کر شب نے چلنے کی تیاری کی
آندھی نے وہ ظلم ہے ڈھایا شاخ جو ٹوٹی بکھرے پھول
ٹوٹے پتے دیکھ خزاں نے اپنی رائے شماری کی
اس کے بچے اس کی خدمت میں دن رات لگے ہیں آج
جس نے بزرگوں کی خدمت کی جس نے تابع داری کی
تاریکی میں ڈوب گیا تھا چاند کا روشن چہرہ جب
ساری رات چراغوں نے گھٹ گھٹ کر آہ و زاری کی
اپنے سوالوں سے گھبرا کر سب خود ہی رو دیتے تھے
چاہنے والوں نے آنکھوں میں شب بھر شب بیداری کی
اس ظالم نے حال نہ پوچھا جس سے تھی امید بہت
سب نے یوں تو رسم نبھائی سب نے دنیا داری کی
یہ شاید اپنی قسمت ہے اس سے شکایت کیا کرنا
جس کو ہم نے دل سے چاہا اس نے دل آزاری کی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام