دیکھیں گے کبھی ہم زعم ترا تو نے کیا ہم کو جانا ہے

غزل| بیکلؔ اتساہی انتخاب| بزم سخن

دیکھیں گے کبھی ہم زعم ترا تو نے کیا ہم کو جانا ہے
اے گردشِ دوراں! ٹھہر ذرا ہاتھوں میں ابھی پیمانہ ہے
پی کر جسے ہستی جھوم اٹھے سن کر جسے اشک چھلک اٹھے
بادہ وہی بادہ ہے اے دل! افسانہ وہی افسانہ ہے
احساس تو ہے ان کو بھی مگر کچھ اور ہی ہے اندازِ نظر
کچھ فکرِ جمالِ شمع بھی ہے کچھ فکر پرِ پروانہ ہے
اس سوزِ دوروں کی بستی میں اس وہم و گماں کی دنیا میں
فرزانوں سے پوچھا کیا گزری دیوانہ تو پھر دیوانہ ہے

غیروں کی شکایت کیوں کیجے اربابِ جفا کو شکوہ ہے
یہ منزلِ عشق ہے اے بیکلؔ اپنا بھی یہاں بیگانہ ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام