اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

غزل| بیکلؔ اتساہی انتخاب| بزم سخن

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے
ہر ایک پھول کے لب پر مرا لہو رکھ دے
زبانِ گل سے چٹانیں تراشنے والے
نگار و نقش میں آسائشِ نمو رکھ دے
تمام شہر کو اپنی طرف جھکا لوں گا
غمِ حبیب مرے سر پہ ہاتھ تو رکھ دے
سنا ہے اہلِ خرد پھر چمن سجائیں گے
جنوں بھی جیب و گریباں پئے رفو رکھ دے
گراں لگے ہے جو احسان دستِ قاتل کا
اٹھ اور تیغ کے لب پر رگِ گلو رکھ دے
شفق ہے پھول ہے دیپک ہے چاند بھی ہے مگر
انہیں کے ساتھ کہیں ساغر و سبو رکھ دے
چلا ہے جانبِ مے خانہ آج پھر واعظ
کہیں نہ جام پہ لب اپنے بے وضو رکھ دے
خدا کرے مرا منصف سزا سنانے پر
مرا ہی سر مرے قاتل کے روبرو رکھ دے

سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکلؔ
تو اپنی پیاس کی صحرا میں آبرو رکھ دے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام