دل کے ہاتھوں کہیں دنیا میں گزارا نہ رہا

غزل| حبیب اشعرؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

دل کے ہاتھوں کہیں دنیا میں گزارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج وہی محرومی
وہ جو اک تیری طرف سے تھا اشارا نہ رہا
اور تو کیا تھا انہیں اپنا سمجھنے کے سوا
وہ بھی اب عشق کی غیرت کو گوارا نہ رہا

چھن گئی آخری امید بھی دل سے اشعرؔ
یہ سہارا ہے کہ اب کوئی سہارا نہ رہا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام