بلائے جاں تری زلفوں کے پیچ و خم بھی ہوتے ہیں

غزل| حبیب اشعرؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

بلائے جاں تری زلفوں کے پیچ و خم بھی ہوتے ہیں
طبیعت بھی الجھتی ہے پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
حسیں اہلِ نظر سے شاد بھی برہم بھی ہوتے ہیں
یہ عالم آشنا بیگانۂ عالم بھی ہوتے ہیں
تحیّر غنچۂ نورس کے مرجھانے پہ کیا معنے؟
جو شیرازے بندھا کرتے ہیں وہ برہم بھی ہوتے ہیں
یہ جن دیوانوں سے ان کی توجّہ بے تعلق ہے
یہی دیوانے ان کی بزم کے محرم بھی ہوتے ہیں
جہاں ہے ان حسینوں کی دل آزاری کا چرچا ہے
کسی بے کس کے یہ کافر شریکِ غم بھی ہوتے ہیں؟
رسائی ہے کہاں تک اہلِ دل کی تم نہیں واقف
تمہاری انجمن میں غائبانہ ہم بھی ہوتے ہیں

مجھے کیا حق ہے اشعرؔ کم نگاہی کی شکایت کا؟
مجھی پر ظلم اس سفّاک کے پیہم بھی ہوتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام