جو دیکھنے کا تمہیں اہتمام کرتے ہیں

غزل| امجد اسلام امجدؔ انتخاب| بزم سخن

جو دیکھنے کا تمہیں اہتمام کرتے ہیں
زمیں سے جھک کے ستارے سلام کرتے ہیں
تو آؤ آج سے ہم ایک کام کرتے ہیں
وفا کے نام سبھی صبح و شام کرتے ہیں
یہ راستہ ہے مگر ہجرتی پرندوں کا
یہاں سمے کے مسافر قیام کرتے ہیں
وفا کی قبر پہ کب تک اسے جلا رکھیں
سو یہ چراغ ہواوؤں کے نام کرتے ہیں
یہ حق پرست ہیں کیسے عجیب سوداگر
فنا کی آڑ میں کارِ دوام کرتے ہیں
جہاں جہاں پہ گرا ہے لہو شہیدوں کا
وہاں وہاں پہ فرشتے سلام کرتے ہیں
نہ گھر سے ان کو ہے نسبت نہ کوئی نام سے کام
دلوں میں بستے نظر میں مقام کرتے ہیں
رواجِ اہلِ جہاں سے انہیں نہیں مطلب
کہ یہ تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں
جہاں میں ہوتے ہیں ایسے بھی کچھ ہنر والے
جو اک نگاہ میں امجدؔ غلام کرتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام