جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی

غزل| مصطفی زیدیؔ انتخاب| ابو الحسن علی

جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدّتوں اپنے بدن سے تری خوشبو آئی
میرے مکتوب کی تقدیر کہ اشکوں سے دھلا
میری آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
اپنے سینے پہ لیے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہ گزاروں میں مری خو آئی
یوں امڈ آئی کوئی یاد مری آنکھوں میں
چاندنی جیسے نہانے کو لبِ جو آئی
اپنی آنکھوں سے لگاتی ہیں زمانے کے قدم
شہر کی راہ گزاروں میں مری خو آئی
ہاں نمازوں کا اثر دیکھ لیا پچھلی رات
میں ادھر گھر سے گیا تھا کہ ادھر تو آئی

مژدہ اے دل کسی پہلو تو قرار آ ہی گیا
منزلِ دار کٹی ساعتِ گیسو آئی

نوٹ:۔ غزل کا دوسرا شعر یوں بھی درج ہے { میرے نغمات کی تقدیر نہ پہنچے تجھ تک / میری فریاد کی قسمت کہ تجھے چھو آئی } ادارہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام