مجھے منظور کاغذ پر نہیں پتھر پہ لکھ دینا

غزل| فضاؔ ابن فیضی انتخاب| بزم سخن

مجھے منظور کاغذ پر نہیں پتھر پہ لکھ دینا
ہٹا کر مجھ کو تم منظر سے پس منظر پہ لکھ دینا
چمن والے خود اپنے کرب سے واقف نہیں شاید
مرے سوکھے ہوئے موسم کو برگِ تر پہ لکھ دینا
خبر مجھ کو نہیں میں جسم ہوں یا کوئی سایہ ہوں
ذرا اس کی وضاحت دھوپ کی چادر پہ لکھ دینا
کبھی میں بھی بہت اونچی اڑانیں بھرنے والا تھا
مری پہچان اسی ٹوٹے ہوئے شہپر پہ لکھ دینا
اسی کی دید سے محروم جس کو دیکھنا چاہوں
مری آنکھوں کو اس کے خواب گوں پیکر پہ لکھ دینا
یہاں میں ہوں کہ تم سب ہی طلسمِ صورت و معنی
اسی لا منظری کو وقت کے منظر پہ لکھ دینا
اسی مٹی کا غمزہ ہیں معارف سب حقائق سب
جو تم چاہو تو اس جملے کو لوحِ زر پہ لکھ دینا
زباں تو کاٹ لی ہے مصلحت آموز دانش نے
مری خاموشیوں کو بولتے کنکر پہ لکھ دینا
بہت نازک ہیں میرے سرو قامت تیغ زن لوگو
ہزیمت خوردگی میری صفِ لشکر پہ لکھ دینا
سرابوں کے سفر سے تو فضاؔ اب تک نہیں لوٹا
جو خط لکھنا تو اتنی بات اس کے گھر پہ لکھ دینا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام