طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے

غزل| احمد راہیؔ انتخاب| بزم سخن

طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئی ہے
گلہ نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں تھک کے سو گئی ہے
مرے خیالوں میں آج بھی خواب عہدِ رفتہ کے جاگتے ہیں
تمہارے پہلو میں کاہشِ یادِ آستاں تھک کے سو گئی ہے
سحر کی امید اب کسے ہے سحر کی امید ہو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں تھک کے سو گئی ہے

نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ہوں کہ مجھ کو راہیؔ
خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام