دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے

غزل| پروینؔ شاکر انتخاب| بزم سخن

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے
تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سال گرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے

میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام