بدن میں اتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

بدن میں اتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے
یہ دل کہانی کوئی سنائے تو نیند آئے
بجھی بجھی رات کی ہتھیلی پہ مسکرا کر
چراغِ وعدہ کوئی جلائے تو نیند آئے
ہوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اجاڑتا ہے
دیے کی لو خود سے تھرتھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اس کو سوچا
وہ زیرِ لب گیت گنگنائے تو نیند آئے

بس ایک آنسو بہت ہے محسنؔ کے جاگنے کو
یہ اک ستارہ کوئی بجھائے تو نیند آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام