کبھی خوابوں پہ مرتا ہوں کبھی تعبیر مارے ہے

غزل| اتباف ابرکؔ انتخاب| بزم سخن

کبھی خوابوں پہ مرتا ہوں کبھی تعبیر مارے ہے
کبھی تدبیر سے مرتا کبھی تقدیر مارے ہے
ہوس ہے میرے اندر کی جو مجھ کو ہے دغا دیتی
کبھی پانے کی حسرت تو کبھی تسخیر مارے ہے
کبھی سوچوں بھلا ہے یہ کبھی سوچوں کہ وہ اچھا
انہی سوچوں میں گم اکثر مجھے تاخیر مارے ہے
عجب فطرت ہے انساں کی وہ چاہے جو نہیں ہوتا
کبھی زندان کی خواہش کبھی زنجیر مارے ہے
بنے یکتا یگانہ یہ نہیں کچھ ہاتھ میں اس کے
کبھی لشکر پہ حاوی ہے کبھی اک تیر مارے ہے
فنا ہونا ہی قسمت ہے بدلنا جس کا نا ممکن
نہ پیتا زہر جو ظالم اسے اکسیر مارے ہے
کتابوں میں لکھے قصے بتاتے ہیں مجھے فاتح
جو اپنا حال اب دیکھوں تو وہ تحریر مارے ہے
محبت بھی ہے اک پھندا نہ جس سے کوئی بچ پایا
وہ جو اپنوں سے بچ جائے اسے رہگیر مارے ہے

ہے جینا شاعروں کا کیا یہ بھی تو جان لے ابرکؔ
کبھی گمنام مرتے ہیں کبھی تشہیر مارے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام