آشنا ہو کر تغافل آشنا کیوں ہو گئے

غزل| اخترؔ شیرانی انتخاب| بزم سخن

آشنا ہو کر تغافل آشنا کیوں ہو گئے
با وفا تھے تم تو آخر بے وفا کیوں ہو گئے
اور بھی رہتے ابھی کچھ دن نظر کے سامنے
دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے خفا کیوں ہو گئے
ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا
وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے
کس طرح دل سے بھلا بیٹھے ہماری یاد کو
اس طرح پردیس جا کر بے وفا کیوں ہو گئے
تم تو کہتے تھے کہ ہم تجھ کو نہ بھولیں گے کبھی
بھول کر ہم کو تغافل آشنا کیوں ہو گئے
ہم تمہارا دردِ دل سن سن کے ہنستے تھے کبھی
آج روتے ہیں کہ یوں درد آشنا کیوں ہو گئے
چاند کے ٹکڑے بھی نظروں میں سما سکتے نہیں
کیا بتائیں ہم ترے در کے گدا کیوں ہو گئے
یہ جوانی یہ گھٹائیں یہ ہوائیں یہ بہار
حضرت اخترؔ ابھی سے پارسا کیوں ہو گئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام