ایسے کھڑے ہیں لوگ ترے گھر کے سامنے

غزل| نذیرؔ فتح پوری انتخاب| بزم سخن

ایسے کھڑے ہیں لوگ ترے گھر کے سامنے
پیاسے کھڑے ہوں جیسے سمندر کے سامنے
بے خوف ہو کے جاتا ہوں برتر کے سامنے
کیا ہے امیرِ شہر قلندر کے سامنے
اے وقت اب تو کانٹے کا ہوگا مقابلہ
میں خیر لا رہا ہوں ترے شر کے سامنے
دنیا کو بھول جائیے آرام کیجیے
سپنے ہیں انتظار میں بستر کے سامنے

تب آئینہ ہی کرتا ہے میری مدد نذیرؔ
لب کھولتا ہوں جب میں سخنور کے سامنے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام