حساب کرنے کی کوششوں میں ہم اس کی باتوں میں آ گئے ہیں

غزل| اظہر فراغؔ انتخاب| بزم سخن

حساب کرنے کی کوششوں میں ہم اس کی باتوں میں آ گئے ہیں
نئے طلب کردہ سب خسارے پرانے کھاتوں میں آ گئے ہیں
شکستگی کے عمل سے واقف نہیں ہیں پہلے بھی اگلی نسلیں
اور اب تو مٹی سے بننے والے کھلونے دھاتوں میں آ گئے ہیں
گریز کرتی ہوئی یہ ٹہنی ابھی جو خود میں سمٹ رہی تھی
ذرا سی کھینچی ہے اپنی جانب تو پھول ہاتھوں میں آ گئے ہیں
اے شب گزیدو! ہماری نیندیں حرام ہونا الگ ستم ہے
اداس شاموں کے سلسلے بھی ہماری راتوں میں آ گئے ہیں
بچی نہیں ہے کسی بھی پیشے میں وضعداری کی پاسداری
بڑے بڑے نام چھوٹی چھوٹی سی وارداتوں میں آ گئے ہیں
ہم ابر پارے دھنک کی زد میں کچھ ایسے آئے کہ ہائے ہائے
ہوئے ہیں دو چار اک دو رنگوں سے اور ساتوں میں آ گئے ہیں

سخن سخن میں یہ کس کے ہونٹوں کا زنگ زائل ہوا ہے اظہرؔ
ورق بیاضوں کے کھل گئے ہیں قلم دواتوں میں آ گئے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام