سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا

غزل| عالمتاب تشنہؔ انتخاب| بزم سخن

سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا
عہدِ شروعِ عشق بھی کس معرکے کا تھا
محرومِ پیش رفت رہے ہم سے خوش خرام
دشتِ زیاں میں اپنا سفر دائرے میں تھا
پیمائشِ سفر نے کئے حوصلے تمام
ہر سنگِ میل سنگ مرے راستے کا تھا
میں خود پہ ہنس رہا تھا زمانے کے ساتھ ساتھ
وہ مرحلہ بھی عشق میں کس حوصلے کا تھا
سن کر ہماری بات یہ کیا حال کر لیا
تم رو پڑے؟ یہ وقت دعا مانگنے کا تھا
نکلی تھی مدتوں میں‌ ملاقات کی سبیل
تشنہؔ کہو یہ کون سا موقع گِلے کا تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام