بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے

غزل| منورؔ رانا انتخاب| بزم سخن

بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
بہت جی چاہتا ہے قیدِ جاں سے ہم نکل جائیں
تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
امیری ریشم و کمخواب میں ننگی نظر آئی
غریبی شان سے اک ٹاٹ کے پردہ میں رہتی ہے
میں انساں ہوں بہک جانا مری فطرت میں شامل ہے
ہوا بھی اس کو چھو کر دیر تک نشے میں رہتی ہے
محبت میں پرکھنے جانچنے سے فائدہ کیا ہے
کمی تھوڑی بہت ہر ایک کے شجرے میں رہتی ہے

یہ اپنے آپ کو تقسیم کر لیتا ہے صوبوں میں
خرابی بس یہی ہر ملک کے نقشے میں رہتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام